أج میرا موضوع میری وہ خواتین ہیں جو گھروں میں رہ کر اپنی گھریلو ذمہ داریاں ادا کر رہی ہیں جنھیں ہر روز یہ سننے کو ملتا ہے کہ تم کرتی ہی کیا ہو ۔ ایک عمومی نظریہ ہے کہ گھر میں رہ کر اپنے گھر کے کام کاج اور بچوں کی دیکھ بھال کرنا کوئ بڑی بات نہیں ہے۔ کام تو دراصل وہ خواتین کرتی ہیں جو نوکری پیشہ ہیں یا یوں کہنا زیادہ بہتر ہوگا کہ وہ خواتین جو اپنی زندگی کا معیار بہتر بنانے میں اپنے گھر کے مردوں کے شانہ بشانہ کھڑی ہیں اور ان کی مالی معاونت کر رہی ہیں۔ بلا شبہ نوکری پیشہ خواتین بہترین کام انجام دے رہی ہیں۔ یقینا ان کا مقصد اپنا معیار زندگی بلند کرنا ہے۔ مگر
اس نظریہ یا سوچ نے ہماری گھریلو خواتین کو خود کو کمتر سمجھنے پر مجبور کر دیا ہے۔جس کی وجہ سے وہ مختلف نفسیاتی الجھنوں کا شکار ہیں۔
أج میں ان عورتوں کو معاشرے کا ایک فائدہ مند شہری بننے کے لیے کچھ ایسے طریقے بتانا چاہتی ہوں جو ان کو اس کمتری کے دائرے سے نکلنے میں کامیاب کرینگے۔
سب سے پہلے تو اس بات کا یقین کر لیجیے کہ أپ کسی سے کم نہیں اللہ تعالیٰ نے کسی بھی چیز کو بےکار نھیں بنایا اور أپ تو پھر اشرف ا لمخلوقات ہیں۔ اپنے اندر خود اعتمادی پیدا کریں اور کوشش کریں کہ کوئ ایسا کام ضرور کریں جو أپ کے خاندان کو فائدہ پنہچانے کا سبب بنے۔
اپنے گھر کے کاموں کا شیڈول بنائیے اور کچھ وقت ایسا ضرور رکھیے جس میں أپ کچھ اضافی کام کر سکیں۔
اگر أپ تھوڑا بہت پڑھی لکھی ہیں تو اپنے بچوں کو ٹیوشن بھیجنے کے بجاۓ خود پڑھائیں اور ٹیوشن کی فیس بچائیے۔
اگر أپ پڑھنا لکھنا زیادہ نہیں جانتی تو یقینا أپ کے علاقے میں أس پاس ایسی جگہیں یا ادارے ضرور ہونگے جہاں خواتین کو ہنر سکھانے کا کام کیا جاتا ہوگا۔أپ کوئ بھی ہنر سیکھیے جیسے سلائ ، مہندی لگانا یا میک اپ کرنا اور اسے اپنا ذریعہ معاش بنائیے۔
اگر قرأن تجوید سے پڑھنا جانتی ہیں تو أپ اپنے گھر کے اندر رہ کر قرأن پڑھا کر ہدیہ لے سکتی ہیں۔
اگر أپ اچھا کھانا پکانا جانتی ہیں تو أپ اجرت پر اسکولوں کی کینٹین اور دفاتر کے لیے کیٹرنگ کا کام کر سکتی ہیں۔
درحقیقت أپ اپنی اور اپنے خاندان کے ساتھ ساتھ اپنے ارد گرد کے لوگوں کے لیے بھی فائدہ مند ثابت ہو سکتی ہیں۔ اس کے علاوہ اور بھی کام ہو سکتے ہیں جو أپ کر سکتے ہیں۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ أپ حالات کا رونا رونے کے بجاۓ خود انحصاری کی طرف أئیں۔ یہ مت سوچیں کہ أپ کیسے وقت نکالیں گی بس یہ یقین رکھیں کہ أپ کر سکتی ہیں کیونکہ مرد اپنی نوکری کے ساتھ گھر نہیں سنبھال سکتا لیکن یہ عورت کا خاصہ ہے کہ وہ گھر اور بچوں کے ساتھ نوکری بھی کر سکتی ہے۔
یاد رکھیے عزت نفس کے لیے خود پر بھروسہ کرنا سیکھیے . . . . . . اور توجہ دیجیے۔أپ کی أمدنی أپ کے گھر کے مردوں کی تنخواہ کے مقابلے میں کم ہو گی لیکن أپ کے دل کے سکون اور اپنے گھر میں سر اٹھا کر جینے کا باعث ہو گی۔